Front Page

The rise and rise of Kaptaan



The rise of Imran Khan from the world of cricket to the driving seat of Pakistan’s generally dynastic, feudal politics is the biggest change we have witnessed in decades. The November 30 rally in Islamabad, the biggest ever by the kaptaan, and the largest ever by any political leader, present or past, speaks a lot about the growing public support for him in every corner of the country. The rallies he has held in other cities of Punjab and Sindh have been very successful, more in Punjab in terms of numbers. In many ways, he has changed the political culture of Pakistan by raising awareness about the major problems Pakistan faces from widespread corruption by the elite to governance crisis and poor investment in education and health.

The conventional parties and their leaders have taken refuge in ‘saving democracy’, showing their majority in parliament and by closing their ranks against kaptaan’s agitation politics. Unable to defend themselves effectively by counterargument or evidence, failing to contradict what the PTI says about their character of politics and misuse of power and national resources, they have hoped that agitation will cause his politics to taper off. As appears from the recent public rallies, neither is the kaptaan tired and nor are his generally young supporters. Rather, the excitement and commitment to changing the functioning of the political order are on the ascent.
Something the old parties are missing in their understanding, or deliberately turning a blind eye to, is the distrust of the middle class, both urban and rural and its unprecedented politicisation. This is, perhaps, the major factor that accounts for the growing popularity of the kaptaan. The leaders of the dynastic parties have nothing to offer to this disillusioned class. With more urbanisation, the political power and influence of this class has grown a great deal. At the moment, this class is solidly with the PTI.
The second important factor that explains the rise of leaders in every competitive, democratic polity is their credibility. The question that is always on the minds of the people is: can they trust them? People in the democratic politics of the two major parties, the PML-N and the PPP have mattered very little, if at all. They have substituted genuine support of the people with building elite networks, the exclusive clubs of political families. In doing so, never were they alive to the changing political reality of Pakistan: increasing distrust in the ruling dynasties and new voices of change that the media and social discourses have popularised. For long, they have lost touch with the political reality of  a quietly changing Pakistan. On the other hand, people listen to and believe Imran Khan. He has etched a place deep in their political imagination for the better future of the country.
Finally, there is the political message of the kaptaan that has made great political waves in the country. Consistently, for years, he has focused on merit, transparency in government affairs, accountability and responsible governance. Sick and tired of systematic corruption, bad governance, and undocumented accumulation of wealth by powerful sections of society, the general public appears to be embracing his politics and leadership as the best hope for real change.
Furthermore, there are two significant things, in my view, about the rise of kaptaan: his de-legitimisation of old politics and trust in the people’s ability to change what he calls the corrupt and dysfunctional political system. He shows beaming confidence in his own ability to change Pakistan and rebuild the fractured ties between the state and society. The idiom has gone viral — the only cure is change itself.
By Rasul Bakhsh Rais: The writer is a security and political analyst and works at the Institute of Strategic Studies, Islamabad
Published in The Express Tribune: http://tribune.com.pk/story/800722/the-rise-and-rise-of-kaptaan/


کپتان کی بلندی

کرکٹ کی دنیا پر راج کرنے والے کپتان، عمران خان کا پاکستان کی موروثیت اور جاگیرداری کے پنجوں میں جکڑی ہوئی سیاست کے افق پر ابھرتے ہوئے اس کا اہم ترین کھلاڑی بننا اور حالات و واقعات پر اپنی گرفت جمانا گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران رونما ہونے والی وہ اہم ترین تبدیلی تھی جس کا ہم نے شاید ہی کبھی مشاہدہ کیا ہو۔ اس تیس نومبر کو اسلام آباد ریلی، جسے بلاشبہ کپتان ، بلکہ اسلام آباد میں ماضی یا حال میں کسی بھی رہنما کی سب سے بڑی ریلی قرار دیا جاسکتا ہے، سے اس تاثر کی تصدیق ہوئی کہ ملک میں عمران خان کی حمایت میں کمی کی بجائے اضافہ ہورہا ہے۔ اس سے پہلے اُن کی طرف سے پنجاب اور سندھ کے مختلف شہروں میں منعقد کی جانے والی ریلیاں کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کرچکی ہیں۔ ان میں خاص طور پر پنجاب میں کیے جانے والے جلسوں میں شرکا کی تعداد حیران کن حد تک زیادہ تھی ۔ عمران کے ناقدین کے علاوہ اُن کے حامی بھی اتنی بڑی کامیابیوں کی توقع نہیں کررہے تھے۔ اُنھوں نے پاکستان کے اہم ترین مسائل، جیسا کہ طبقۂ اشرافیہ کی ہوشربا حد تک بڑھتی ہوئی بدعنوانی، سرکاری وسائل کی لوٹ مار، اقربا پروری، ناقص حکمرانی اور تعلیم اور صحت کے عوامی منصوبوں میں افسوس ناک حد تک کم سرمایہ کاری ، کو اجاگر کرتے ہوئے پاکستان کے سیاسی کلچر کو تبدیل کردیا ۔ 
جس دوران سیاسی میدان میں عمران خان کی یلغار جاری ہے، روایتی سیاسی جماعتوں نے ''جمہوریت کے بچائو‘‘ کی ڈھال کے پیچھے پناہ لینے میں ہی عافیت گردانی۔ اُنھوں نے پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت دکھائی اور کپتان کی احتجاجی سیاست کے خلاف متحد ہو کر صف بندی کی پالیسی اپنائی؛ تاہم عمران کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے اُن کے ہاتھ سے پیش قدمی کا موقع چھین کر اُنہیں دفاعی قدموں پر لا کھڑ ا کیا۔درحقیقت اُن کے پاس پی ٹی آئی کے اس نعرے کا کوئی توڑ نہیں کہ روایتی سیاسی جماعتیں اپنے عہدے اور اختیار سے ناجائز فائدہ اٹھا کر لوٹ مار کرتی ہیں، تاہم اُنہیں امید تھی کہ عمران خان احتجاج کا ٹمپو برقرار نہیں رکھ پائیں گے اور دھرنے اور احتجاجی جلسے رفتہ رفتہ دم توڑ جائیں گے۔ تاہم موجودہ جلسوں نے اُنہیں چکرا دیا ہے کیونکہ نہ تو کپتان میں تھکاوٹ کے آثار دکھائی دیے اور نہ ہی ان کے نوجوان حامیوں میں۔ اس کی بجائے سیاسی نظام کو بدلنے کے نعرے بلند سے بلند ہوتے گئے ۔ یہ صورت ِحال دیگر سیاسی جماعتوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھی۔ آج سے سو دن پہلے کوئی بھی موجودہ صورتِ حال کی توقع نہیں کررہا تھا اور نہ ہی اس کے لیے ذہنی طور پر تیار تھا۔ کیا ہم ایک نئی قسم کے سیاسی اور سماجی انقلاب کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ 
پاکستان کی روایتی سیاسی جماعتیں اس صورت ِحال کی تفہیم کرنے میں ناکام رہیں ، یا پھر اُنھوں نے جان بوجھ کر پاکستان کے درمیانی طبقے اور اس میں اٹھنے والی اس بے مثال تحریک سے اغماض برتنے کی پالیسی جاری ۔ جب عوا م نے دیکھا کہ یہ روایتی سیاسی جماعتیں اُن کے مسائل اور شکایات سے لاتعلق ہیں تو وہ کپتان کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالتے گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا۔ اب حال یہ ہے کہ خاندانی سیاست پر مبنی جماعتوں کے پاس حقائق پسند عوام کے سامنے رکھنے کے لیے کچھ نہیں بچا۔ تعلیم کے فروغ اور شہری علاقوں میں عوام کے آباد ہونے کے عمل نے ہنرمند اور ملازمت پیشہ افراد پر مشتمل درمیانے طبقے کی وقعت کو بڑھا دیا ہے۔ کل کا علم نہیں لیکن آج اس طبقے کی اکثریت پی ٹی آئی کے ساتھ ہے۔ 
جمہوری سیاست میں رہنمائوں کی سربلندی میں ان کی ساکھ اور اس کے عوام کی نگاہوں میں مثبت تاثر کی بہت اہمیت ہے۔ یہ سوال ہمیشہ سے عوام کے ذہن میں رہتا ہے کہ کیا وہ اپنے رہنمائوں پر اعتماد کرسکتے ہیں؟ہمارے زمینی حقائق یہ کہتے ہیںکہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں، پی پی پی اور پی ایم ایل (ن)کے نزدیک عوام کی بہت کم اہمیت پائی گئی ہے۔سیاسی عمل میں عام آدمی کو اہمیت دینے کی بجائے اُنھوں نے قابل ِ انتخاب سیاسی خاندانوںکے نیٹ ورکس سے تعلق رکھنے والے افراد کے ذریعے سیاسی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ تاہم ایسا کرتے اور انتخابات جیتتے، ہوئے وہ پاکستان میں بتدریج رونما ہونے والی سیاسی تبدیلی پر نظر نہ رکھ سکے، یا اپنی کامیابیوں کے زعم میںنظر انداز کرگئے۔ اس تبدیلی کا محور خاندانی اور موروثی سیاست سے بیزاری اورتبدیلی کے نعرے، جسے میڈیا اور سماجی بیداری نے مہمیز دیا ،کی عوامی حلقوں میں پذیرائی ہے۔ کچھ عرصے سے یہ روایتی جماعتیں اُس سیاسی حقیقت سے خود کوہم آہنگ کرنے میں ناکام ہیں جو پاکستان میں سرائیت کرتی جارہی ہے۔ اس کے برعکس، عمران خان اس تبدیلی کے داعی بن کر میدان میں موجود ہیں۔ اس لیے جو کچھ وہ کہتے ہیں، لوگ سنتے اور یقین کرتے ہیں۔ درحقیقت اُنھوں نے ملک کے بہتر مستقبل کا خواب دکھا کر عوام کے ذہن پر گہرے سیاسی نقوش مرتب کیے ہیں۔ یہ نقوش روایتی جماعتوں کے روایتی حربے نہیں مٹا سکیں گے۔ 
آخرمیں، کپتان کے سیاسی پیغام ۔۔۔شفاف الیکشن۔۔۔ نے ملک کے سیاسی ماحول میں زبردست ارتعاش پیدا کردیا ہے۔ جو حلقے پی ٹی آئی کے ساتھ سیاسی وابستگی نہیں رکھتے، وہ بھی اس پیغام کو رد کرنے سے قاصر ہیں۔ عمران خان کئی سالوں سے بڑے تسلسل کے ساتھ میرٹ،حکومت امور میں شفافیت، احتساب اور ذمہ دار حکومت کی باتیں کررہے ہیں۔ چونکہ عوام کی اکثریت ناقص حکومتی کارکردگی، بدعنوانی، اقرباپروری اور عوامی فلاحی کاموں میں سرکارکی عدم دلچسپی دیکھ کر موجودہ روایتی سیاسی نظام سے بیزار تھی، اس لیے اُنھوں نے تبدیلی کے لیے اپنا وزن کپتان کے پلڑے میں ڈال دیا۔ 
کپتا ن کی عوامی پذیرائی کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اُنھوں نے انتخابی دھاندلی کو سیاسی ایشو بنا کر روایتی سیاست کی اخلاقی اور قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ عوام کو یہ باور کرانے میں بھی کامیاب جارہے ہیں کہ یہ بدعنوان اور گلاسڑا خاندانی سیاست پر مبنی نظام اُن کے مسائل حل کرنے سے قاصر ہے۔ نوجوان افراد کپتان پر اعتماد کرتے ہیں کہ وہ ملک میں جدید تعلیم اور انصاف کی فراہم کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں۔ روایتی مذہبی افراد کے نزدیک وہ استعماری طاقتوں کے خلاف وطن کی خودمختاری کی بات کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ فی الحال ان کاکوئی مالیاتی اسکینڈل منظرِ عام پر نہیں آیا‘ اس لیے عوام اُنہیں بجا طور پر تبدیلی کی علامت سمجھتے ہیں۔ اس لیے یہ بات بجا طور پر کہی جاسکتی ہے کہ آج کا اہم ترین سیاسی بیانیہ تبدیلی ہے اوریہ تبدیلی روایتی سیاست کے خلاف ہے اور کپتان اس تبدیلی کے نقیب ہیں۔ 

* * * * * * * * * * * * * * * * * * *
Humanity, Religion, Culture, Ethics, Science, Spirituality & Peace
Peace Forum Magazines
Over 1,000,000 Visits
* * * * * * * * * * * * * * * * * * *